نئی دہلی، 28 نومبر، 2018 – دماغی صحت کی دیکھ بھال کو صحت عامہ کے بڑے عالمی چیلنجوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس مسئلے پر دو طرفہ کوششوں کی حوصلہ افزائی کے لئے، بھارت اور امریکہ کے سرکردہ پالیسی سازوں، محققین، ڈاکٹروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کل امریکن سینٹر نئی دہلی میں بھارت میں دماغی صحت کی دیکھ بھال کی کایا پلٹ کردینے کا پیغام دیا، اور یہ تبادلہ خیال کیا کہ تحقیق کے نتائج کو زیادہ موثر طریقے سے کس طرح لاگو کیا جائے اور دماغی صحت کی دیکھ بھال کے مستقبل کے لئے لائحہ عمل کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔
دماغی صحت کی تحقیق کے لئے فنڈ فراہم کرنے والے سرکردہ امریکی ادارے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ (این آئی ایم ایچ) کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر جوشوا گورڈن نے اپنی تنظیم کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صحت عامہ پر ممکنہ اثرات کے لئے این آئی ایم ایچ کی عالمی تحقیق کا ایجنڈا مختلف ٹائم فریموں پر محیط ہے۔ قریب مدتی تحقیق یہ بتا سکتی ہے کہ کم وسائل کے ماحول میں دماغی صحت کی موثر دیکھ بھال کس طرح بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ درمیان مدتی تحقیق میں ہم کم وسائل کے ماحول میں سائنسدانوں کی صلاحیت کو بڑھانا چاہتے ہیں کہ وہ مقامی و متعلقہ دماغی صحت پر ریسرچ کریں۔ طویل مدت میں ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ ہماری تحقیق کا عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو، ہم گوناگوں عالمی آبادیوں میں نفسیاتی امراض کو بنیادی طور پر سمجھنے والے میکانزم کے بارے میں زیادہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
معمولی اور اوسط آمدنی والے ممالک میں دماغی صحت کے وسائل میں اضافے کیلئے ریسرچ شراکت داری قائم کرنے پر مرکوز اس عالمی میٹنگ میں مقرین نے دماغی صحت کے مسائل کو حل کرنے میں بھارت کی کوششوں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے خاص طور پر محققین اور پالیسی سازوں کے درمیان ابتدائی بات چیت کی بڑھتے ہوئے پھیلائو کی تعریف کی، جو یہ یقینی بناتی ہے کہ تازہ ترین تحقیق مؤثر طریقے سے نافذ کی گئی ہے۔
صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی سیکرٹری محترمہ پریتی سودن نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ ’’میں اس بات میں مکمل یقین رکھتی ہوں کہ دماغی صحت کے بغیر صحت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ انہوں نے 1987 کے دماغی صحت کے ایکٹ کو مزید ترقی پسند اور مساوی 2017 ورژن سے بدلنے کا ذکر کیا، جو بقول انکے بھارت میں دماغی صحت کی دیکھ بھال کے لئے ایک مضبوط تر اور زیادہ شاندار قانونی گراؤنڈ کے ساتھ ساتھ مریض موافق، اور بھارت میں دماغی صحت کی دیکھ بھال کے حقوق پر مبنی مثالی نمونہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ’’یہ دوسرے حقوق کے ساتھ، دماغی صحت کی دیکھ بھال کے حق، سماجی زندگی کے حق، مساوات کے حق، رازداری کے حق، اور دماغی بیماری کیلۓ قانونی امداد کے حق کی حمایت کرتا ہے، اور اس طرح یہ اِن افراد کو طاقت دیتا ہے، اور انہیں مزید خودمختاری اور فیصلہ سازی کی طاقت فراہم کرتا ہے۔‘‘
دماغی صحت کےسرکردہ ماہرین ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر وکرم پٹیل اور سینٹر فار مینٹل ہیلتھ لا اینڈ پالیسی کی ڈاکٹر سمترا پٹھارے نے بھی نئے قانون کی اہمیت بیان کی اور کہا کہ، ’’یہ پروگرام پالیسی سازوں، عملدرآمد کاروں اور پیرو کاروں کے لئے یہ تبادلہ خیال کرنے کا ایک موقع ہے کہ 2014 قومی دماغی صحت پالیسی اور 2017 قومی دماغی صحت دیکھ بھال ایکٹ بل کے وزن کو پورا کرنے کے لئے کس طرح ملکر کام کریں۔‘‘
امریکی محکمہ صحت و انسانی خدمات (ایچ ایچ ایس) اور امریکی سفارت خانہ کے امریکین سینٹر نے یہ پروگرام امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ (این آئی ایم ایچ) کے تعاون سے، سنگٹھ، انڈین لا سوسائٹی پونہ کے سینٹر فار مینٹل ہیلتھ لا اینڈ پالیسی (سی ایم ایچ ایل پی)، پرائم کنسورشیم، اور ہارورڈ میڈیکل سکول کے ڈپارٹمنٹ آف گلوبل ہیلتھ اینڈ سوشل میڈیسن کے تعاون سے منعقد کیا تھا۔
نیشنل مینٹل ہیلتھ کے2016 میں کئے گئے سروے میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ بھارتی بالغان کی تقریبا 15 فیصد آبادی کو دماغی صحت کے ایک یا ایک سے زیادہ مسائل کے لئے علاج کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں، پانچ بالغوں میں سے ایک شخص کسی ذہنی بیماری کے ساتھ زندگی گزارتا رہتا ہے، اور منشیات کی موجودہ وبا نے منشیات کی علت کے علاج کے لئے دماغی صحت کی دیکھ بھال کی مرکزی اہمیت کو ایکبار پھر اجاگر کیا ہے۔
بھارت میں ایچ ایچ ایس ہیلتھ اتاشی ڈاکٹر پریتھا راجا رمن نے کہا کہ ’’اگلے امریکہ-بھارت ہیلتھ ڈائیلاگ میں دماغی صحت، تبادلہ خیال کے اہم موضوعات میں سے ایک ہوگا۔ ہم ایچ ایچ ایس اور وزارت صحت و خاندانی بہبود کے درمیان دماغی صحت پر مفاہمت نامہ کو حتمی شکل دینے کے بھی خواہاں ہیں، جس میں ڈپریشن، ڈیمنشیا، اور خودکشی کی روک تھام، یوگا سمیت روایتی بھارتی ادویات کے فوائد صحت پر تحقیق، بہترین ضابطہ عمل کی شیئرنگ، انضباطی ڈھانچوں کی مضبوطی، اور انسانی وسائل کی صلاحیت کی تعمیر جیسے شعبوں میں اشتراک بڑھانے کی بات کہی گئی ہے۔‘‘