نتائج آچکے ہیں۔ انتخابات کا عمل ختم ہوا۔ امریکی ووٹروں نے ووٹ ڈالے، اور امریکی لوگوں نے اپنی رائے ظاہر کردی ہے۔ ان ووٹوں اور ان آرا کے ذریعہ امریکیوں نے امریکہ کے 45 ویں صدر کے طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کا انتخاب کر لیا ہے۔ آج ہم یہاں کسی کی انفرادی جیت کا جشن منانے یا کسی مخصوص امیدوار کی طرفداری کرنے کے لئے نہیں بلکہ مجموعی طور پر امریکہ کے جمہوری انتخابی نظام کا جشن منانے اور اس عمل کی عملی شکل دیکھنے کے لئے موجود ہیں۔ حالاںکہ واقعات سے بھرپور اور کانٹے کے مقابلے والی انتخابی مہم میں پہلی بار کئی نئی باتیں ہوئی ہیں؛ تاہم قطعی نتیجہ وہی ہے جو ہمیشہ ہوا کرتا ہے یعنی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے بعد نتیجے کا احترام کرتے ہولے اُسے تسلیم کرنا۔ سیاسی نقشہ پر خواہ ڈیموکریٹ، ری پبلکن، آزاد ہوں یا لال یا بلیو؛ امریکی ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارے اقدار اور ہماری بنیاد کے لئے اساسی حیثیت کے حامل ہیں۔ اور مجھے یقین ہیکہ اس بات کے لئے یہاں دنیا کی قدیم ترین جمہوریت اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت دونوں ملکوں کے تمام لوگ ستائش کریں گے۔ رشتے جو ہمارے دونوں ملکوں کو ایک ساتھ باندھتے ہیں انکی تعمیر ہماری مشترک جمہوری اقدار پر ہوئی ہے اور یہ رشتے امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کی دوستی سے آگے جاتے ہیں، اور اقتصادی اور عوامی تعلقات سے آگے جاتے ہیں۔ امریکہ بھارت دوستی بہت اہم ہے، دو فریقی ہے اور یہ مضبوط تر ہو رہی ہے۔ امریکہ بھارت کے درمیان شاندار دوستی کے لئے ہمیں چار سال کی ایک اور مدت مل گئی ہے۔
